Mehshar" drama is making waves in 2024 as one of the most popular Pakistani dramas. Viewers are constantly searching for ways to watch Mehshar drama online and stay updated with the latest episodes. With a powerful Mehshar drama cast and a compelling story, this show has won hearts. Want to know about the Mehshar drama OST, full story, or reviews? You're in the right place! Get all the latest updates on Mehshar drama timings, schedule, and legal streaming options. Is Mehshar drama a hit or flop? Find out everything here!

منظر 1: عبداللہ کھلونوں کے ساتھ کھیل رہا ہوتا ہے۔ زہرا فکر مندی سے آئمہ کو دیکھتی ہے، جو چپ چاپ بیٹھی ہوتی ہے۔

زہرا: (ہلکی آواز میں) بہن، جب سے تم ڈاکٹر کے پاس سے آئی ہو، بہت پریشان لگ رہی ہو۔
اگر کچھ غلط ہے تو مجھے بتاؤ۔
میں تمہاری نوکرانی ضرور ہوں، لیکن تم سے بہنوں جیسا پیار کرتی ہوں۔

آئمہ: (نظریں جھکا کر) کچھ نہیں، زہرا۔ میں بھی ایک انسان ہوں، کوئی روبوٹ نہیں،
تو میرا موڈ ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہ سکتا۔
عبداللہ کو بلالو، میں اسے سلا دوں، صبح اسکول جانا ہے۔

زہرا: جی، بہن۔

زہرا عبداللہ کو بلانے چلی جاتی ہے۔ آئمہ کچھ دیر خلا میں گھورتی رہتی ہے، جیسے کسی گہری سوچ میں ہو۔


منظر 2: صحن میں آمنہ جھولے پر بیٹھی زور سے جھولا جھول رہی ہے۔ ماں گھبرا کر آگے بڑھتی ہے۔

ماں: آمنہ! جھولا آہستہ جھلاؤ! تم گر جاؤ گی، بیٹا! احتیاط کرو!

آمنہ جھولا روک کر سنجیدہ ہو جاتی ہے۔

آمنہ: مما، میرے بھائی کیوں نہیں ہے؟ میں اکیلی کیوں ہوں؟

ماں: (مسکرا کر اسے پیار سے دیکھتی ہے) کس نے کہا تم اکیلی ہو، بیٹا؟
تمہارے پاس میں ہوں، تمہارے پاس پاپا ہیں۔
تم اکیلی نہیں ہو۔
تمہیں معلوم ہے؟ میں اکیلی تھی۔
پھر خدا نے تمہارے پاپا کو میری زندگی میں بھیجا،
جو مجھ سے بے حد محبت کرتے تھے، اور پھر اس نے مجھے تم سے نوازا۔
شاید تمہاری زندگی میں بھی کوئی ایسا آئے جو بھائی جیسا ہو،
پھر تمہیں اس کی کمی محسوس نہیں ہوگی۔

آمنہ: (معصومیت سے) وہ کب آئے گا، مما؟

ماں: جب تم سچے دل سے خدا سے دعا کرو گی۔
جب ہم کچھ دل سے مانگتے ہیں، تو وہ ہمیں دے دیتا ہے۔
تو جو تم چاہو گی، وہی ہوگا۔

آمنہ: (مسکرا کر) اچھا۔

ماں آمنہ کے بالوں کو سہلاتی ہے، جبکہ آمنہ سوچوں میں گم ہو جاتی ہے۔


منظر 3: رات کا وقت، میر بیڈ پر بے چین لیٹا ہے۔ اچانک وہ ہڑبڑا کر جاگ جاتا ہے، پسینے میں بھیگا ہوا۔

میر: (گھبرا کر) ابو! مجھے معاف کر دیں۔ میں مجبور تھا، ابو، پلیز مجھے معاف کر دیں!

پارس فوراً کمرے میں داخل ہوتی ہے، اسے سہارا دیتی ہے۔

پارس: میر! کیا ہوا؟ تم ٹھیک ہو؟
پھر وہی خواب؟

میر: گھبراہٹ میںجب سے مما اور پاپا چلے گئے ہیں، میں خواب میں انہیں دیکھتا ہوں،
ہمیشہ مجھ سے ناراض نظر آتے ہیں۔ وہ مجھ سے ناراض ہیں، پارس۔

پارس: (نرمی سے) نہیں، میر۔ ان کی روحیں تم سے ناراض نہیں ہیں۔

میر: (مایوسی سے) نہیں، میں نے انہیں بہت تکلیف دی ہے۔

پارس: ایسا نہیں ہے، میر۔ ان کا ایکسیڈنٹ ایک حادثہ تھا، تمہاری کوئی غلطی نہیں تھی۔
میر، یہ خواب بار بار تمہیں تنگ کر رہے ہیں، تمہیں کسی ماہرِ نفسیات کے پاس جانا چاہیے۔

میر سر جھکا لیتا ہے، اس کی آنکھوں میں ندامت اور بے بسی ہے۔ پارس خاموشی سے پانی کا گلاس بڑھاتی ہے۔

پارس: (نرمی سے) پانی پی لو، میر۔

میر کچھ لمحے دیکھتا ہے، پھر آہستہ سے پانی کا گلاس تھام لیتا ہے۔


منظر 4: دروازہ کھلتا ہے، اور اندر سے عبداللہ خوشی سے بھاگتا ہوا آتا ہے۔ اس کی ماں دروازے پر کھڑی ہے۔

عبداللہ: (خوشی سے) بہن زہرا! مما آ گئی! مما آ گئی!

ماں: (عبداللہ کو پیار کرتے ہوئے) میرا بیٹا! کیسا ہے میرا شہزادہ؟

عبداللہ: (جو ش سے) مما، دیکھو! پاپا نے آپ کے لیے کتنے تحفے بھیجے ہیں!

ماں: (مسکراتے ہوئے) واقعی؟ پاپا نے بھیجے ہیں؟

عبداللہ: ہاں! میں ان کے دوست کے پاس سے لے کر آیا ہوں۔

زہرا پیچھے کھڑی یہ سب دیکھ رہی ہے، مگر اس کا چہرہ سخت ہو رہا ہے۔

زہرا: (سرد لہجے میں) عبداللہ، یہ تحفے کب تک تمہیں خوش رکھیں گے؟
کیوں نہیں تم اپنے پاپا سے کہتے کہ تحفے بھیجنا بند کریں،
اور خود آ کر تمہیں اپنے ساتھ لے جائیں؟
تاکہ ہم سب اس تماشے سے آزاد ہو سکیں!

ماں کی آنکھیں غصے اور تکلیف سے چمک اٹھتی ہیں۔

ماں: (سخت لہجے میں) زہرا، عبداللہ کو اس کے کمرے میں لے جاؤ اور تحفے دکھاؤ۔

زہرا: جی، بہن۔

عبداللہ معصومیت سے اپنی ماں کو دیکھتا ہے، پھر زہرا کے ساتھ چلا جاتا ہے۔ ماں کے چہرے پر دکھ کے سائے ہیں۔


منظر 5: ایک سنسان سڑک، آئمہ ہاتھ میں ایک بیگ پکڑے کھڑی ہے۔ اچانک، ایک گاڑی قریب آ کر رکتی ہے، اور دروازہ کھلتا ہے۔ ایک آدمی باہر آتا ہے۔

آدمی: (سخت لہجے میں) کیوں آئی ہو یہاں؟ سب ٹھیک ہے؟

آئمہ: (ٹھہرے ہوئے لہجے میں) خوشی سے نہیں آئی۔ مجبوری میں آئی ہوں۔

آدمی: (طنزیہ ہنسی) جانتی ہو، آئمہ،
مجھے تم میں سب سے زیادہ کیا چیز ناپسند ہے؟

ایک لمحے کے لیے خاموشی چھا جاتی ہے۔ آدمی آئمہ کی طرف دیکھتا ہے، پھر سرد لہجے میں بولتا ہے۔

آدمی: تمہاری پوری ہستی۔
مجھے تمہارا وجود ہی پسند نہیں۔

آئمہ کی آنکھیں نم ہونے لگتی ہیں، مگر وہ مضبوطی سے کھڑی رہتی ہے۔

آدمی: مجھے تب سکون ملے گا، جب تم ہمیشہ کے لیے ہماری زندگی سے چلی جاؤ گی۔

آئمہ: (آہستہ سے) تو خوش ہو جاؤ۔ میں جا رہی ہوں۔

آدمی: (حیران ہو کر) سچ؟ کہاں جا رہی ہو؟ اپنے شوہر کے پاس؟

آئمہ: (ٹھہرے ہوئے لہجے میں) یہ تمہارا مسئلہ نہیں ہے۔

آدمی آئمہ کو دیکھتا رہتا ہے، مگر وہ بغیر کچھ کہے اپنی راہ لے لیتی ہے۔